ماهنامه
دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء
دینی علوم کی عظمت اور فضیلت
اسلامی تعلیمات کی اخلاقی اور تہذیبی قدریں
از: مولانا حافظ محمد صدیق المیمنی
علم کی
فضیلت وعظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ
ودلآویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر
اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم وتربیت، درس وتدریس
تو گویا اس دین برحق کا جزولاینفک ہے، کلام پاک کے تقریباً
اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم جل شانہ نے رحمت عالم
صلى الله عليه وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمایا وہ اِقْرَأ ہے، یعنی
پڑھ، اور قرآن پاک کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں
نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی
عظمت ظاہر ہوتی ہے، ارشاد ہے:
اِقْرأ
وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم.
یعنی
پڑھ اور جان کہ تیرا رب کریم ہے، جس نے علم سکھایا قلم کے ذریعے
سکھلایا آدمی کو جو وہ نہ جانتا تھا۔
گویا
وحی الٰہی کے آغاز ہی میں جس چیز کی
طرف سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کے ذریعے نوعِ بشر کو توجہ دلائی
گئی وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم وتربیت کے جواہر وزیور سے
انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا، یہاں ضمناً اس حقیقت کو
واضح کردینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جہاں عام انسانوں کیلئے
قلم حصول علم کا ایک دنیوی اور مادی ذریعہ ہے وہاں
رحمة للعالمین صلى الله عليه وسلم اور رب العالمین کے درمیان
حضرت جبریل امین علیہ السلام ایک نورانی اور ملکوتی
واسطہ، یہی وہ ملکوتی واسطہ ہے جس نے آپ صلى الله عليه وسلم کو
حصول علم کے مادی ذرائع سے بے نیاز کردیا، اور آپ کی تعلیم
وتربیت براہ راست خود خالق کائنات نے فرمائی، جس کی تشریح
کلام پاک میں بایں الفاظ موجود ہے:
وَاَنْزَلَ
اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَالم تَکُنْ
تَعْلَمُ.
یعنی
اور اتاری اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اور آپ کو سکھائیں وہ باتیں
جو آپ جانتے نہ تھے۔
علم
وحکمت اور دین و دانائی کا درجہ اور علم والوں کا رتبہ اسلام میں
کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ کلام پاک کی مندرجہ ذیل آیات سے
ہوتا ہے:
یُوٴْتِی
الْحِکْمَةَ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّوٴْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ
اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا.
یعنی
اللہ جسے چاہتا ہے عقل اور دانائی کی باتیں مرحمت فرماتا ہے،
اور جسے اللہ عقل اور دانائی کی باتیں بخشتا ہے اسے بہت بڑی
نعمت عطا کرتا ہے۔
یَرْفَعِ
اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا
الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ.
اللہ
تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کردے گا جو ایمان لائے، اور جنھوں نے
علم حاصل کیا۔
خود
حضور پرنور صلى الله عليه وسلم نے متعدد مواقع پر اور مختلف پیرایوں میں
علم وحکمت کی ترغیب دلائی ہے۔ مثال کے طور پر چند احادیث
نبویہ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے درج کی جاتی ہیں:
(۱) طلب العلم فریضة علی کل مسلم.
یعنی
طلب کرنا علم کا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
(۲) حضرت انس رضى الله تعالى عنه سے روایت
ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کہ جو شخص علم کی طلب میں
نکلا وہ گویا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے، یہاں تک
کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹے۔
(۳) ابوامامہ رضى الله تعالى عنه سے مروی
ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کہ ایک عالم کی
برتری ایک عبادت گذار پر ایسی ہے جیسے میری
فضیلت تم میں سے کسی ادنیٰ شخص پر، اور پھر فرمایا
کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے اور زمین وآسمان کی ہر شے
حتیٰ کہ بلوں کی چیونٹیاں اور سمندروں کی
مچھلیاں بھی علم سکھانے والوں کے لئے دعائے خیر کررہی ہیں۔
قرآن
حکیم کا نظریہٴ تعلیم
مذکورہ
بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اسلام یا قرآن ہم کو تعلیم حاصل
کرنے سے روکتا نہیں، بلکہ تعلیم کو ہمارے لئے فرض قرار دیتا ہے،
وہ تعلیم کے ذریعے ہم کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات
کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے، وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم
کو حقیقی علم ثابت کرتا ہے، اور اس کو بنی نوع انسان کی
حقیقی صلاح وفلاح اور کامیابی وبہبودی کا ضامن
بتاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ قرآن حقیقی علم ہے ، اور دوسرے تمام علوم
وفنون معلومات کے درجہ میں ہیں، ان تمام معلومات کو اپنی اپنی
استعداد کے مطابق حاصل کرسکتے ہیں، کیونکہ ان سب کے اصول حضرت آدم
عليه السلام ہی کے خمیر میں ودیعت کردئے گئے ہیں جیسا
کہ کلام پاک کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:
وعلم
آدم الاسماء کلہا.
اور
آدم کو اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں بتادیں۔
پیغمبر
اسلام صلى الله عليه وسلم نے کیسے بلیغ انداز میں فرمادیا
ہے:
الحکمة
ضالة المومن فحیث وجدہا فہو احق بہا.
کہ حکمت کو ایک گم شدہ لال
سمجھو جہاں پاؤ اپنا اسے مال سمجھو
یہی
وجہ ہے کہ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ علم وحکمت
اور صنعت وحرفت کے وہ ذخائر جن کے مالک آج اہل یورپ بنے بیٹھے ہیں
ان کے حقیقی وارث تو ہم لوگ ہیں، لیکن اپنی غفلت
وجہالت اور اضمحلال وتعطل کے سبب ہم اپنی خصوصیات کے ساتھ اپنے تمام
حقوق بھی کھوبیٹھے۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر
ازبر ہو پھر پسر وارثِ میراث
پدر کیوں کر ہو
ورنہ
حقیقت تو یہ ہے کہ دینی علوم کے علاوہ دنیاوی
وعمرانی علوم کا کوئی شعبہ یا پہلو ایسا نہیں ہے جو
اہل اسلام کے ہاتھوں فروغ نہ پایا ہو، علم کیمیا، طب، جراحی،
ہندسہ، ریاضیات یا ہیئت وفلکیات، طبیعات وحیوانیات
ارضیات وحیاتیات، معاشیات واقتصادیات، تاریخ
وجغرافیہ اور خدا جانے کتنے بے شمار علوم وفنون اور بیش بہا ایجادات
واختراعات کے ایسے ماہر وموجد گذرے ہیں کہ اس دور جدید میں
بھی ترقی یافتہ قومیں اپنے جدید سے جدید
انکشافات وتحقیقات کے لئے ہمارے آبا واجداد کی تشریحات وتسخیرات
کی خوشہ چین اور رہین منت ہیں،جیسا کہ مارگولیتھ،
جرجی زیدان، ڈریپر، لیبان، نولڈیکی وغیرہ
جیسے شہرئہ آفاق مصنّفین وموٴرخین کی بلند پایہ
تصانیف سے پتہ چلتا ہے
غرض فن ہیں جو مایہٴ
دین ودولت طبیعی، الٰہی، ریاضی
وحکمت
طب اور کیمیا، ہندسہ اور ہیئت سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت
لگاؤگے کھوج ان کا جاکر جہاں تم
نشاں ان کے قدموں کے پاؤگے واں تم
(حالی)
دین
ودنیا کا فرق
اہل
اسلام کے اس دور ترقی اور موجودہ تہذیب یورپ کے درمیان جو
اصولی اور بنیادی فرق معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کی
ترقی کی بنا خداپرستی اور اطاعات خداوندی پر رکھی
گئی تھی اور موجودہ تہذیب وترقیات کی تہ میں
مادہ پرستی، شکم پروری، اور اطاعت نفس کارفرما ہے، ان کا منتہائے مقصد
رضائے الٰہی اور خدمت خلق تھا، وہ دنیاوی طاقتوں کی
تسخیر احکام الٰہی اور قوانین قرآن کے ماتحت کرتے تھے، وہ
کائنات کے ہر ذرہ میں، اور ہر ذرہ کی کائنات میں آیاتِ الٰہیہ
کا سراغ لگاتے تھے، انھوں نے دنیا یا دنیا کی کسی چیز
کو مقصود بالذات نہیں بنایا، ان کی حکومت ودولت، ان کا جاہ
وجلال، ان کے علوم وفنون اسباب وذرائع تھے معرفت کردگار اور عبادت پرودرگار کے
بخلاف اس کے مغربی تہذیب وتمدن کی بنیاد چونکہ مادہ پرستی
پر رکھی گئی تھی، اس لئے الحاد ودہریت افراد جماعت کے رگ
وپے میں سرائت کرگئی ہے، اس قسم کی تہذیب کا لازمی
اور قدرتی نتیجہ قوانین فطرت سے جنگ، خالق ومالک سے بغاوت اور
اس کے احکام کی خلاف ورزی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔
مسلمان
جب تک اسلام کی صاف اور سیدھی راہ پر چلتے رہے یعنی
احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے
رکھا اس وقت تک ظاہری ومعنوی ہر طرح کی سربلندیوں اور
سرافرازیوں سے خود بھی مالامال ہوتے رہے، اور نوع انسان بھی ان
کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہوتی رہی، جب انھوں نے دین
کا دامن چھوڑا تو فضل الٰہی نے ان کا ساتھ چھوڑا، برکتوں اور عزتوں نے
ان سے منہ موڑا، اور ان کے علوم وفنون، ان کی زبردست طاقتیں، اور فلک
بوس عمارتیں، ان کے جاہ وجلال اور ان کے مال ومنال کچھ کام نہ آئے، ان سے چھین
لئے گئے۔
مذکورہ
بالا موازنہ سے اہم نتیجہ یہ ہاتھ آیا کہ مسلمانوں کو دین
کے بغیر نہ دولت وثروت سرنگوں ہونے سے بچاسکتی ہے، نہ طاقت وحکومت، نہ
دین کے ہوتے ہوئے فقر وفاقہ انھیں سربلند ہونے سے روک سکتے ہیں،
نہ بے سروسامانی وبے بسی، نہ ہی اکثریت واقلیت کا
مسئلہ ان کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔
نامور
اہل علم کا اعتراف
بالفاظ
دیگر مسلمانوں کے لئے دارین کی فلاح وبہبود گی، کامیابی
وکامرانی کی اگر کوئی چیز حقیقی ضامن اور اصلی
ذریعہ بن سکتی ہے تو وہ صرف اسلام ہے، جو نہ صرف مسلمانوں ہی کیلئے
بلکہ ان کے ذریعہ ساری انسانیت کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں
بہترین رہبر اور مکمل دستور حیات بننے کی صلاحیت رکھتا ہے
جیساکہ ہر ملک ومذہب کے ہر زمان و ہر زبان کے بڑے بڑے نامور اور انصاف پسند
مدبروں اور موٴرخوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، اور آئے دن
کرتے رہتے ہیں، اقوام عالم کی ممتاز ہستیاں اسلام کی زندہ
وجاوید تعلیمات کو فطرت انسانی کے مطابق بتاتی رہیں،
اور جس ایمان افروز انداز میں اسلام کے اصولوں کو خراج تحسین
ادا کرتی رہی ہیں ان سے کتابوں کی کتابیں بھری
پڑی ہیں، مثال کے طور پر یہاں چند اقتباسات پیش کئے جاتے
ہیں، ممتاز روسی فیلسوف کاؤنٹ ٹالسٹائی اپنی کتاب
”دی لائٹ آف ریلیجن“ میں ایک جگہ رقمطراز ہے۔
”قرآن
مسلمانوں کی ایک مذہبی کتاب ہے، جس کی نسبت ان کا یہ
خیال ہے کہ اس کو خدا نے نازل کیا ہے، یہ کتاب عالمِ انسانی
کی رہنمائی کے لئے ایک بہترین رہبر ہے، اس میں تہذیب
ہے شائستگی ہے، تمدن ہے، معاشرت ہے، اور اخلاقی اصلاح کے لئے ہدایت
ہے،اگر صرف یہی کتاب دنیا کے سامنے ہوتی اور کوئی ریفارمر
(مصلح) پیدا نہ ہوتا تو یہ عالم انسانی کی رہنمائی
کے لئے کافی تھی، ان فائدوں کے ساتھ ہی جب ہم اس بات پر غور
کرتے ہیں کہ یہ کتاب ایسے وقت میں دنیاکے سامنے پیش
کی گئی جبکہ ہر طرف آتش فساد کے شرارے بلند تھے، خون ریزی
اور قتل وغارتگری کا دور دورہ تھا، اور فحش کاری عام تھی،
توہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ اس
مقدس کتاب نے معجزانہ طور پر ان تمام گمراہیوں کا خاتمہ کردیا۔“
یہ
حیرت دو چند ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نبی
امّی نے عرب جیسی جاہل مطلق قوم کو زمین کے تہ خانوں سے
نکال کر فلک الافلاک پر پہنچادیا، عرب کے خانہ بدوش چرواہوں کے سرپر دنیا
کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا، اور یاد رہے کہ یہ عظیم
الشان انقلاب کل ۲۳ سال کی مختصر سی مدت میں
کردکھایا، اور ان ہی قرآنی تعلیمات کے زیراثر عالم
اسلام میں ایسی جلیل القدر شخصیتیں اور
الوالعزم ہستیاں رونما ہوئیں کہ دنیا کی کسی قوم نے
آج تک ایسی عدیم النظیر مثالیں پیش کی
ہیں نہ قیامت تک پیش کرسکتی ہے۔ عرب کے ریگستان
سے نکل کر عرب کے شتربان دیکھتے ہی دیکھتے اقصائے عالم میں
پھیل گئے،اور جہاں کہیں پہنچے وہاں قرآن کے نور ہدایت اور علم
وحکمت سے اس خطہ کو اوراس آبادی کو منور کردیا، علوم وفنون کی بڑی
بڑی درسگاہیں قائم کیں، بڑے بڑے متمدن شہر آباد کئے، جن کی
ترقی وعروج کی یہ شان تھی کہ آج جس طرح طلبہ ممالک یورپ
میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں کسی زمانے میں
ممالک یورپ سے بلاد اسلامیہ کی طرف علم وحکمت کے موتیوں
سے اپنے دامن مراد بھرنے کے لئے آتے تھے۔
مسٹر
اسٹینلی لین پول اپنی تصنیف ”گارڈ نس آف ہولی
قرآن“ میں کس بصیرت افروز اور فصیح انداز میں اظہارضمیر
کررہے ہیں:
”قرآن
کو حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) نے ایسے نازک وقت میں دنیا
کے سامنے پیش فرمایا جبکہ ہر طرف تاریکی وجہالت کی
حکمرانی تھی، اخلاق انسانی کا جنازہ نکل چکا تھا، اور بت پرستی
کا ہرطرف زور تھا، قرآن نے ان تمام گمراہیوں کو مٹایا، جو دنیا
پر کئی صدیوں سے چھائی ہوئی تھیں، قرآن نے دنیا
کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی، دینیات کے
اصول اور علوم وحقائق سکھائے، ظالموں کو رحم دل اور وحشیوں کو پرہیزگار
بنایا، اگر یہ کتاب شائع نہ ہوتی تو انسانی اخلاق تباہ
ہوجاتے،اور دنیا کے باشندے برائے نام ہی انسان رہ جاتے۔“
غیرقوموں
کے مفکرین دین اسلام کے گہرے اور سنجیدہ مطالعہ کے بعد مسلمانوں
کو دعوت دے رہے ہیں کہ خدارا وہ اسلامی اصولوں کے آئینہ دار بن
کر زندگی کے میدان میں آئیں،اور بے چین وپریشان
حال انسانیت کے لئے عالمگیر امن وسکون کا، راست بازی وصداقت کا،
اور اخلاص وہمدردی کا خدائی پیغام پہنچائیں۔
اپنے ہی
وطن کے ایک مایہٴ ناز اور صلح جو سپوت مسٹر جے پرکاش نرائن کس یقین
اور درد بھرے انداز میں فرماتے ہیں:
”اگر
آج بھی دنیا بھر کے مسلمان غفلت کے پردے چاک کرکے کھلے میدان میں
آئیں اور اسلام کے اصولوں پر عمل کریں تو ساری دنیا کا
مذہب اسلام ہوسکتا ہے، صحرائے عرب میں جو ہیرا چمکا تھا اس نے نگاہوں
کو خیرہ کردیا تھا، آج اس کے چمکتے دمکتے اصولوں پر گرد وغبار جم گیا
ہے اگر اس گرد وغبار کو دور کردیا جائے تو وہ اپنی چمک سے سارے عالم
کو مسحور کرسکتا ہے، اور ساری دنیا اس کے سامنے اپنی آنکھیں
بچھاسکتی ہے۔“
اور وہ
حقیقی اسلام جس کی آج ساری دنیا متلاشی اور
محتاج ہے وہ اگر کہیں موجود ہے تو قرآن کریم میں، احادیث
نبویہ صلى الله عليه وسلم میں، سرورکائنات صلى الله عليه وسلم کی
سیرت طیبہ میں، اور اصحاب کرام کی پاک زندگیوں میں،
لہٰذا اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان قرآن کریم کو سمجھیں،
اور اس پر عمل کریں، احادیث نبویہ کا بغور مطالعہ کریں، سیرت
طیبہ سے مستفیض ہوں، اور اصحاب کرام کی پاک زندگیوں کو اپنے
لئے مشعل راہ بنائیں۔
دینی
تعلیم اور مذہبی فہم
ظاہر
ہے کہ دینی تعلیم کا مناسب انتظام اور اہتمام کئے بغیر دین
کا ذوق اور دین کا فہم پیدا ہونا ناممکن ہے، اس لئے ہمارا اولین
فرض ہے کہ آنے والی نسل کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے
لئے کوئی ایسا معقول نظام تعلیم مرتب کریں کہ جس کے ماتحت
ہم اپنے بچوں کو مخصوص اوقات میں خالص دینی تعلیم دلاسکیں۔
اسلامی
تعلیمات کی تہذیبی قدریں
مجھے یقین
ہے کہ اگر موجودہ حالات کی روشنی میں قوم دینی تعلیم
کے اہم ترین تقاضے کو صحیح جذبے کے ساتھ حل کرنے میں کامیاب
ہوگئی تو آئندہ نسل خالق ومخلوق کے حقوق صحیح طور پر ادا کرنے کے قابل
ہوجائے گی، اور اس اعتبار سے دیانتدار امن پسند شہری اور ملک
وسماج کی مخلص، دردمند اور خیرخواہ بن جائیگی، اسلئے کہ
اسلام جو باتیں اسے سکھلائے گا وہ اس نوعیت کی ہوں گی:
(۱) کوئی مسلمان انسانی برادری
کے کسی شخص کا دل اس کے مخصوص مذہب یا خیال کی توہین
کرکے نہیں دکھاسکتا، اور نہ ضد میں کوئی ایسا کام کرسکتا
ہے جو انصاف سے دورہو، کیونکہ کلام پاک میں اللہ تعالیٰ
کا ارشاد ہے:
ولا یجرمنکم
شنآن قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ (مائدہ)
کسی
قوم کی دشمنی تم کو اس بات پرآمادہ نہ کرے کہ تم انصاف کو ہاتھ سے دیدو،
تمہیں ہر حال میں انصاف ہی کرنا چاہئے یہی بات پرہیزگاری
سے قریب ہے۔
(۲) انسانی برادری کا کوئی
شخص اگر پڑوس میں رہتا ہوتو پڑوسی ہونے کے اعتبار سے اس کا وہی
حق ہے جو کسی مسلمان کا حق ہے۔
(۳) ہر انسان ہمدردی اور رحم کا مستحق
ہے، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے۔ ”تم زمین والوں پر رحم
کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“۔
(۴) صدقہ وخیرات میں (زکوٰة
کے علاوہ) مسلمانوں کے علاوہ انسانی برادری کا ہر شخص حقدار ہے، بشرطیکہ
وہ امداد کا مستحق ہو۔
(۵) عقائد اور عبادات کے بعد اسلام میں
اخلاق کی بے حد اہمیت ہے، حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے
اخیارکم احسنکم اخلاقاً. تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے
اچھے ہوں۔
(۶) ایک اور موقع پر فرمایا:
”(قیامت
کی) ترازو میں حسن خلق سے زیادہ بھاری کوئی چیز
نہ ہوگی کہ حسن اخلاق والا اپنے حسن خلق سے ہمیشہ کے روزہ دار اور
نمازی کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔“ (ترمذی)
(۷) ایک بار رسول اللہ صلى الله عليه
وسلم نے فرمایا:
”کسی
بندہ کا ایمان پورا نہیں ہوگا جب تک وہ جھوٹ کو ہر طرح سے نہ چھوڑ دے،
یہاں تک کہ مذاق اور جھگڑے میں، اگرچہ وہ حق ہی پر کیوں
نہ ہو۔“
(۸) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے: ”جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں“
جس سے
دیانتداری اور امانت کی جو بے حد اہمیت اسلام میں
ہے وہ ظاہر ہوتی ہے، حدیث شریف میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ
اصلی مسلمان وہی ہے جو اپنے تمام معاملات میں سچا ہو، ایمان
دار ہو، امانت دار ہو اور وعدے کا پکا ہو۔
(۹) نبی کریم صلى الله عليه وسلم
کا ارشاد ہے:
”ہر دین کا ایک خاص خلق ہوتا ہے،
اور اسلام کا خاص خلق جہاد ہے۔“
ایک
اور موقع پر ارشاد فرمایا: ”حیا بھی ایمان کی ایک
شاخ ہے۔“
”مسلمان
نہ طعنہ دیتا ہے، نہ لعنت بھیجتا ہے، نہ بدزبانی کرتا ہے،اور نہ
گالیاں بکتا ہے۔“ (حدیث)
ان کے
علاوہ جن برائیوں کو دور کرنے کی ہدایات ہمیں اللہ کی
کتاب اور اس کے رسول پاک کی احادیث میں ملتی ہیں،
ان میں سے کچھ بہت اہم برائیاں یہ ہیں:
”جھوٹ،
وعدہ خلافی، دغابازی، تہمت لگانا،خوشامد کرنا، کنجوسی، لالچ، بے
ایمانی، چوری، ناپ تول میں کمی، رشوت لینا،
اور دینا، سود لینا،اور دینا، شراب پینا، غصہ کرنا، کسی
کو دیکھ کر جلنا، اترانا، دکھاوے کے لئے کام کرنا، فضول خرچی وغیرہ۔“
مومن کی
زندگی ان جیسے تمام عیبوں سے بالکل پاک ہونا چاہئے، مومن دنیا
میں نیکی کا پیامی ہے، نیکی پھیلانا
اور برائی مٹانا اس کا کام ہے، اگر خود اس کے دامن میں بداخلاقی
کی گندگیاں لگی ہوئی ہوں تو وہ برائی سے جنگ کرنے
کے لئے اللہ کا سپاہی کیسے بن سکے گا، اسی طرح زندگی کے
ہر ہر شعبہ کے لئے پاکیزہ تعلیمات اسلام میں پائی جاتی
ہیں۔